رپورٹ کے مطابق، امریکہ نے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہوکرایران کیخلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ لگانے سے بین الاقوامی تعلقات میں ایک نئے باب کھولنے کی کامیابی کو تباہ کردیا اور ایک بار پھر اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد، ایران اور مغرب کے درمیان تعلقات کی عدم اعتماد کا ثابت کر دیا۔
نیز یورپی یونین اور ایران جوہری معاہدے کے یورپی فریقین نے اس معاہدے سے متعلق اپنے کیے گئے وعدوں پر عمل کو تاخیر کا شکار کرنے سے ایران سے تعلقات میں ایک مایوس کن ریکارڈ چھوڑدیا۔
اب تقریبا تین مہینے ہوگئے ہیں کہ ویانا جوہری مذاکرات روکے گئے ہیں اور انہوں نے صرف مذاکرات کا از سرنو آغاز پر زور دیا ہے جبکہ اس حوالے سے کوئی بھی ٹھوس کاروائی نہیں اٹھایا ہے۔
اس سلسلے میں ایرانی صدر مملکت ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے جوہری معاہدے کے اراکین کو واضح طور پر کہا ہے کہ ہم ایرانی مفادات کی فراہمی پر ایک بھی قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
انہوں نے ٹی وی چنیل سے قوم سے براہ راست گفتگو کرنے کے پہلے مرتبے میں کہا کہ ویانا مذاکرات میں ہمارا مقصد ظالمانہ پابندیوں کی منسوخی ہے اور مذاکرات کا محور بھی ایرانی مفادات پر مبنی ہے۔
علامہ رئیسی نے کہا کہ ہم مذاکرات کرنے کیلئے مذاکرات کے خواہاں نہیں ہیں؛ بلکہ ہم ایسے مذاکرات کے خواہاں ہیں جو نتیجہ خیز ہو اور اس کے نتیجے میں ایران کیخلاف عائد پابندیاں اٹھائے جائیں اور عوام کی زندگی کی بحالی ہوجائے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے ویانا مذاکرات کے ابتدا ہی سے ملک کیخلاف تمام پابندیوں کی منسوخی کا مطالبہ کیا؛ ٹرمپ نے ایران کیخلاف 800 یکطرفہ اور غیر قانونی پابندیاں عائد کیں اور ان سب کو ختم کرنا ہوگا۔
ایران کا موقف تمام پابندیوں کو ختم کرنا ہے اور وہ اس بات کو یقینی بنانے کے طریقے کی تلاش کر رہا ہے کہ پابندیاں مؤثر طریقے سے ہٹائی جائیں نیز ایران، امریکہ کیجانب سے حصول کیے گئے معاہدے کی کامیابی کیخلاف ورزی نہ کرنے کی ضمانت دینے کا خواہاں ہے۔
اس طرح، توقع کی جاتی ہے کہ ویانا مذاکرات قریب مستقل میں بحال ہوجائیں گے۔ ان مذاکرات میں ایران، ایسے حقوق مانگ رہا ہے جن کی امریکہ نے جوہری معاہدے کے تحت خلاف ورزی کی ہے اور یورپ ان کا ازالہ کرنے سے گریزاں ہے۔
ان مطالبات کا حصول بھی قابل تصدیق اور ٹھوس ہونا ہوگا تاکہ ایران کو جوہری معاہدے سے امریکی علیحدگی کے بعد ایک سال تک اپنے کیے گئے وعدوں پر قائم رہنے میں واپسی کی ضمانت دے۔
یہ مغربی فریقین کیلئے ایک سخت امتحان ہے تا کہ وہ خدشات کا اظہار کرنے اور دھمکی آمیز بیانات کرنے کے بجائے جوہری معاہدے سے متعلق اپنے کیے گئے وعدوں پر عمل کریں۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ